نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

روزہ کرونا وائرس سے بچاؤ میں فائدہ مند ہے


روزہ قوت مدافعت میں اضافہ کرکے امراض سے بچاؤ کا باعث بنتا ہے


تحریر: حکیم قاضی ایم اے خالد

دنیا کے ایک ارب سے زائد مسلمان اسلامی و قرآنی احکام کی روشنی میںبغیر کسی جسمانی و دنیاوی فائدے کاطمع کئے تعمیلاًروزہ رکھتے ہیں تاہم روحانی تسکین کے ساتھ ساتھ روزہ رکھنے سے جسمانی صحت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں جسے دنیا بھر کے طبی ماہرین نے متعدد کلینیکل ٹرائلز کے بعد سائنسی طور پر تسلیم کیا ہے۔

 روزہ رکھنے سے نہ صرف مدافعتی نظام مضبوط ہوتا ہے بلکہ بحیثیت مجموعی قوتِ مدافعت کے اندر زبردست اضافہ ہوجاتا ہے جس کے نتیجے میں انسان کے جسم میں بیماریوں سے بچنے کی صلاحیت بھی پیدا ہوجاتی ہے اور جو بیماریاں جسم کے اندر موجود ہوتی ہیں ان سے بھی چھٹکارا حاصل کیا جا سکتاہے۔ ہمارے جسم میں موجود قوتِ مدافعت کا کام جسم کو جراثیم اور ہر قسم کے وائرسزسے بچانا ہے جب بھی جسم پر جراثیم حملہ آور ہوتے ہیں یا کوئی بیماری جسم میں داخل ہوتی ہے تو جسم کے اندر موجود امیون سسٹم متحرک ہو جاتا ہے۔ سینکڑوں قسم کے دفاعی خلیات ہیں جو اس مدافعتی نظام میں حصہ لیتے ہیں اور روزے ان تمام مدافعتی مورچوں کو مضبوط کرتے ہیں۔ جسم میں ایک خاص قسم کے خلئے ہوتے ہیں جو امینو گلوبن کہلاتے ہیں انکی کئی اقسام ہیں ان سب کا کام جسم کو مدافعت فراہم کرناہے روزے رکھنے سے امینو گلوبن کی مقدار اور ان کی سطح بڑھ جاتی ہے بالخصوص جو IGEکہلاتے ہیں اور بالعموم بیماریوں کے خلاف دفاعی فرنٹ لائن کا کام کرتے ہیں۔لہذا روزہ کرونا وائرسCovid-19سے بچاؤ میں بھی ڈیفنس لائن کا کردار ادا کر سکتا ہے۔

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے جیرونٹولوجی اور حیاتیاتی علوم کے پروفیسر ویلٹر لانگو کے مطابق روزہ مدافعتی نظام کی تعمیر نو کر دیتا ہے۔روزہ رکھنے سی سیلز ٹوٹتے ہیں اور پھر از سرنو پیدا ہو جاتے ہیں۔پروفیسر لونگو کہتے ہیں ہم نے انسانوں اور جانوروں پر کئے جانے والے تجربات میں یہ دیکھا کہ طویل روزوں سے جسم میں سفید خون کے خلیات کی تعداد میں کمی ہونی شروع ہو گئی مگر جب روزہ کھولا گیا تو یہ خلیات پھر سے واپس آگئے اور تبھی سائنسدانوں نے یہ سوچنا شروع کیا کہ آخر یہ واپس کہاں سے آتے ہیں ۔ بقول پروفیسر لونگو طویل روزوں کی حالت کے دوران جسم میں سفید خون کے خلیات کی کمی سے پیدا ہونے والی حوصلہ افزا تبدیلیاں اسٹیم سیلز کے تخلیق نو کے خلیہ کو متحرک بناتی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ جب انسان روزے کے بعد کھانا کھاتا ہے تو اس کا جسم پورے نظام کی تعمیر کے لیے اسٹیم خلیات کو سگنل بھجتا ہے اور توانائی محفوظ کرنے کے لیے مدافعتی نظام خلیات کے ایک بڑے حصے کو ری سائیکل کرتا ہے جن کی یا تو ضرورت نہیں ہوتی ہے یا جو ناکارہ ہو چکے ہوتے ہیں۔پروفیسر لونگو نے کہا کہ ایسے شواہد نہیں ملے جن کی وجہ سے فاسٹنگ کو خطرناک قرار دیا جائے بلکہ اس کے فائدہ مند ہونے کے حوالے سے ٹھوس شواہد سامنے آئے ہیں۔ محققین نے کہا کہ وہ ان امکانات کی بھی تحقیقات کر رہے ہیں کہ آیا روزے کے مفید اثرات صرف مدافعتی نظام کی بہتری کے لیے ہیں یا پھر اس کے اثرات دیگر نظاموں اور اعضا پر بھی لاگو ہوتے ہیں۔
دی ٹیلی گراف میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں یو ایس سی نورس کمپری ہینسیوکینسر ہسپتال 'کلینکل میڈیسن شعبہ کی اسسٹنٹ پروفیسر تانیا ڈورف کا کہنا ہے کہ کیمو تھراپی کا عمل اگرچہ جانوں کو بچاتا ہے تاہم یہ جسمانی مدافعتی نظام کو انتہائی نقصان پہنچاتا ہے لیکن روزہ رکھنے کا عمل انسانی قوت مدافعت میں اضافہ کر کے کیموتھراپی کے نقصانات کو کم کرنے کا باعث بنتا ہے۔
جدید طبی تحقیقات کے مطابق روزہ رکھنے سے انفیکشن یعنی تعدیہ کا عمل بھی کم ہو جاتا ہے۔لہذا روزہ رکھنے سے کرونا وائرس سمیت متعدی امراض سے بھی محفوظ رہا جا سکتا ہے۔
لوگوں میں یہ غلط العام ہے کہ روزے رکھنے سے کمزوری ہو جاتی ہے اور کہیں اس سے کرونا وائرس میں مبتلاء ہونے کا خطرہ نہ ہو ۔اس حوالہ سے ترکی کے محکمہ مذہبی امور کے جاری کردہ اعلامیہ میں زور دیا گیا ہے کہ روزہ رکھنے اور وائرس کے پھیلا ؤکے درمیان کوئی خطرہ نہیں پایا جاتا۔علاوہ ازیں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ روزہ رکھنے سے قوتِ مدافعت میں کمزوری آنے کے حوالے سے کوئی طبی دلیل موجود نہیں بلکہ اس کے بر عکس روزے کے قوت مدافعت پر مثبت اثرات پیداکرنے اور ایمیون سسٹم طاقتور ہونے کے حوالے سے متعددسائنسی تحقیقات و مقالوں (ریسرچ پیپرز)کا وجود ملتا ہے۔
دنیا میں کی گئی متعدد طبی تحقیقات نے ثابت کیا ہے کہ روزہ رکھنے سے قوتِ مدافعت بہتر ہو جاتی ہے۔ ہمارا جسم ایک مدافعتی نظام کے تحت چل رہا ہے۔ جسم کی قوتِ مدافعت ہمیں بیماریوں سے بچا کر صحت مند رکھتی ہے۔ اس قوت مدافعت کو بہترکرنے کے طریقوں میں سے ایک طریقہ روزے رکھنا بھی ہے۔ انسان صبح سے شام تک بھوکا پیاسا رہتا ہے تو اس کے جسم کے اندر وہ خلئے متحرک ہو جاتے ہیں جو اس کے مدافعتی نظام کو بہتر بنا کر اس کو طرح طرح کی بیماریوں سے بچاتے ہیں۔ اگر بیماری جسم میں پہلے سے موجود ہو تو روزے اس کے صحت یاب ہونے کی رفتار میں اضافہ کر دیتے ہیں۔
کرونا وائرس کی مہلک وبا کے اس نازک دور میں اللہ پاک رمضان المبارک کا مقدس مہینہ بھی ہمیں عطاکر رہے ہیں تو اس سے مستفید ہونا چاہئے اور روزوں کا اہتمام کرکے ایمانی وجسمانی طور پر مضبوط بن کر کرونا وائرس کے خلاف اہم کردار ادا کرنا چاہئے۔
٭…٭…٭
Twitter:qazimakhalid
00923034125007

 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

نرسنگ ایک باوقار پیشہ

اس نوبل پروفیشن کی تقدیس ملحوظ خاطر رکھیں   تحریر: میڈیکل جرنلسٹ ' قاضی ایم اے خالد Twitter:qazimakhalid تاریخ اسلام کا بغور جائزہ لیا جائے تو اسمیں نرسنگ کے پیشے کے حوالہ سے ہمیں سیدہ رفیدہ انصاریہ رضی اللہ تعالی عنھا کا ذکر ملتا ہے جنھوں نے اس شعبہ میں گراں قدر خدمات سر انجام دیں اسلامی دنیا کی پہلی نرس سیدہ رفیدہ انصاریہ رضی اللہ تعالی عنھا نے نرسنگ کی تعلیم و تربیت اپنے والد سے سیکھی.جو ایک معالج تھے سیدہ رفیدہ انصاریہ رضی اللہ تعالی عنھا نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیشتر جنگوں میں بطور نرس حصہ لیا اور زخمیوں کے تیر نکالنے نیز مرہم پٹی سے لیکر پانی پلانے تک متعدد خدمات سرانجام دیں۔ مدینہ کی ریاست قائم ہونے کے بعد حضرت محمد صلی اللہ وسلم نے سیدہ رفیدہ انصاریہ رضی اللہ تعالی عنھا کو بلا کر عورتوں اور لڑکیوں کو نرسنگ کی تربیت دینے کے بعد مریضوں کی خدمت کرنے کا حکم صادر فرمایا تھا۔ پاکستان میں نرسنگ کے شعبے کی بنیاد بیگم رعنا لیاقت علی خان نے رکھی،بعدازاں 1949میں سنٹرل نرسنگ ایسویسی ایشن اور 1951میں پاکستان نرسنگ ایسویسی ایشن کی بنیاد رکھی گئی  اس ...

کورونا وائرس سے بچاؤ کیلئے ہربل چائے استعمال کریں

میتھرے اور ادرک کی چائے ہر قسم کی وائرل ڈیزیزمیں مفید ہے حکیم قاضی ایم اے خالد  کویڈ ١٩سمیت کوئی بھی وائرل ڈیزیز ہو یا کسی بھی وائرس سے فلو ہو ادرک اورمیتھی کے بیج یعنی میتھرے کی ہربل ٹی انتہائی فائدہ مندہے اس کے تیار کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ میتھرے ایک کھانے کا چمچ ایک گلاس پانی میں جوش دیںجب پانی ایک تہائی رہ جائے اتار کر چھان لیں اب اس میں تازہ ادرک کا رس ایک چمچ چائے والااور شہد ایک بڑاچمچ شامل کرلیں  یہ ہربل ٹی پینے سے خوب پسینہ آتا ہے'بخار ٹوٹ جاتا ہے' دردیں ختم ہو جاتی ہیں'سانس کی تنگی دور ہو کرجکڑی ہوئی چھاتی کھل جاتی ہے اور فلو میں افاقہ ہو جاتا ہے۔ یہ نباتاتی چائے پیٹ اور آنتوں کے ورم کو دور کرنے کیلئے بھی مفید ہے۔اس سے خوراک اور سانس کی نالیوں کی خراش اور خشکی دورہو جاتی ہے یہ ہربل چائے قدرتی طور پر اینٹی الرجی خصوصیات رکھتی ہے لہذا یہ نزلہ زکام ، کثرت سے چھینکیں آنا اور ڈسٹ الرجی کے شکار لوگوں کے لئے بھی انتہائی فائدہ مندہے۔  میتھی کے بیج دستیاب نہ ہوں تواس کی جگہ خشک میتھی بھی استعمال کی جا سکتی ہے اسی طرح جہاں تازہ ادرک دستاب نہ ہو وہ...