اس نوبل پروفیشن کی تقدیس ملحوظ خاطر رکھیں
تحریر: میڈیکل جرنلسٹ ' قاضی ایم اے خالد
Twitter:qazimakhalid
تاریخ اسلام کا بغور جائزہ لیا جائے تو اسمیں نرسنگ کے پیشے کے حوالہ سے ہمیں سیدہ رفیدہ انصاریہ رضی اللہ تعالی عنھا کا ذکر ملتا ہے جنھوں نے اس شعبہ میں گراں قدر خدمات سر انجام دیں اسلامی دنیا کی پہلی نرس سیدہ رفیدہ انصاریہ رضی اللہ تعالی عنھا نے نرسنگ کی تعلیم و تربیت اپنے والد سے سیکھی.جو ایک معالج تھے سیدہ رفیدہ انصاریہ رضی اللہ تعالی عنھا نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیشتر جنگوں میں بطور نرس حصہ لیا اور زخمیوں کے تیر نکالنے نیز مرہم پٹی سے لیکر پانی پلانے تک متعدد خدمات سرانجام دیں۔
مدینہ کی ریاست قائم ہونے کے بعد حضرت محمد صلی اللہ وسلم نے سیدہ رفیدہ انصاریہ رضی اللہ تعالی عنھا کو بلا کر عورتوں اور لڑکیوں کو نرسنگ کی تربیت دینے کے بعد مریضوں کی خدمت کرنے کا حکم صادر فرمایا تھا۔
پاکستان میں نرسنگ کے شعبے کی بنیاد بیگم رعنا لیاقت علی خان نے رکھی،بعدازاں 1949میں سنٹرل نرسنگ ایسویسی ایشن اور 1951میں پاکستان نرسنگ ایسویسی ایشن کی بنیاد رکھی گئی اس کے بعد 1952پھر 1973میں بہترین قانون سازی کی گئی اور پاکستان نرسنگ کونسل کا ادارہ وجود میں آیا جسے نرسنگ کے شعبہ کی ترویج کا ٹاسک دیا گیا اِس کونسل کے قوانین کے مطابق چاروں صوبوں میں نرسنگ ایجوکیشن دی جار ہی ہے اور نرسنگ اداروں کو چلا یا جا رہا ہے۔جبکہ اس وقت پاکستان کے چاروں صوبوں میں نرسنگ کے تقریباً 200کے قریب چھوٹے بڑے ادارے کام کررہے ہیں۔
اگرچہ پاکستان نرسنگ کونسل 1973سے قائم ہے۔ مگر اِس کونسل پر ایک خاص مافیا کی اجارہ داری کی وجہ سے یہ حقیقی معنوں میں نرسوں کے حقوق کی ترجمان نہیں بن سکی۔پاکستان نرسنگ کونسل پر زیادہ تر ڈاکٹرز اور دیگر نان نرسنگ شعبہ جات کے افراد کا کنٹرول رہا ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان میں نرسز کو ترقی کے وہ مواقع میسر نہیں آسکے جو دیگر ممالک میں نرسز کو مہیا ہیں۔
لیکن ایسا بھی نہیں کہ نرسز کے حقوق کو کسی نے سمجھا نہ ہو ۔ پاکستان میں آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کراچی نے سب سے پہلے نرسز کو ایک باعزت شناخت دی اور تیماداری کی عملی تربیت کے ساتھ ساتھ نرسز کو انٹرنیشنل لیول کی ایجوکیشن بھی مہیا کی ۔
مہذب معاشروں میں نرسنگ کے شعبے کی اہمیت اور نرسوں کو وقارحاصل ہے، اور ان کو حقوق بھی دیے گئے ہیں، مگر بدقسمتی سے ترقی پذیر ملکوں میں جس طرح کسی بھی شعبے میں عورت کا استحصال کیا جاتا ہے اور اسے کئی مسائل کا سامنا ہے، اسی طرح ہمارے ملک میں بھی نرسیں غلط رویے اور نامناسب سلوک کی وجہ سے تکالیف اور مسائل سے دوچار ہیں۔ پاکستان سمیت بیش تر ترقی پذیر ممالک میں فیمیل نرسوں کی کمی ہوتی جا رہی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ اسے عام لوگوں کی نظروں میں قابل احترام پیشہ نہیں رہنے دیا گیا۔
نرسنگ کا شعبہ ایسا شعبہ ہے جو مریض کی مرض کی شفایابی میں اہم ترین کردار سرانجام دیتا ہے۔اور پوری دنیا میں اسے "سسٹر" کہہ کر پکارا جاتا ہے مگر صد افسوس کہ پاکستان میں اس پیشے کی اہمیت کو سمجھنے کی بجائے الٹا اس کی تضحیک ہی کی جاتی رہی ہے اور اب تو انتہا ہی ہو گئی کہ ملک کے اہم ترین عہدے پر فائز شخصیت کی طرف سے بھی اس پروفیشن کا مذاق اسے "حور" کہہ کر اڑایا گیا۔اسلامی تعلیمات کے مطابق "حور" بیوی کو کہا جاتا ہے جبکہ اس پروفیشن کا امیج "سسٹر" کا ہے لہذا اس کی تقدیس ملحوظ خاطر رکھیں۔
نرسوں کی تعریف عالمی ادارے کے تحت یوں کی جاتی ہے کہ یہ بیماروں کی دیکھ بھال کرنے کے علاوہ ایسا ماحول بناتی ہیں جو مریض کی صحت یابی میں معاون ہو، نرسیں بیماری کا پھیلاو روکنے اور لوگوں کو صحت یابی کی طرف لے جانے کی کوشش کرتی ہیں۔ انسانیت کی خدمت ان کا بنیادی کام ہے اور ان کی خدمات قومیت، رنگ و نسل اور کسی بھی سماجی حیثیت و مرتبے اور تعصب سے بالاتر ہیں۔ ہمیں اس پیشے کی قدر اور اس سے وابستہ خواتین کو عزت اور احترام دینا ہو گا۔
موجودہ تبدیلی سرکار نے تو انتہا کردی۔باہر سے اسکالرشپ دیکر جدید کورسز کروا کر مریضوں کی اچھی خدمت کروانے کی بجائے جو سٹوڈنٹس اچھی تعلیم کے لئے آگے آرہے تھے ان کی تنخواہ میں بھی کٹوتی شروع کروا دی۔گورنمنٹ نرسنگ کالج جو کم فیس میں بہترین پروفیشنل تعلیم مہیا کر رہے تھے ان میں داخلوں پر غیر اعلانیہ پابندی عائد کر رکھی ہے کہ اصل منصوبہ نجکاری کا ہے۔خاص طور پر خیبر پختونخواہ کے اندر گورنمنٹ نرسنگ سکولز میں نئے داخلوں کا مسئلہ ہے۔صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں ایک لاکھ نرسز کی کمی کا سامنا ہے مگر اس کمی کو دور کرنے کے لیے کسی قسم کے عملی اقدامات نہیں اٹھائے جا رہے۔
پانچ سال قبل ہسپتالوں کو اپ گریڈ کرکے میڈیکل ٹیچینگ انسٹیٹوٹ کے نام تو دئیے گئے لیکن افسوس کہ ابھی تک ان ہسپتالز میں پروفیشنل ایجوکیشن سسٹم متعارف کروانے میں انہیں ناکامی کا سامنا ہے۔ جب سمسٹر کے حساب سے ٹریننگ نہیں دی جائے گی تو مریضوں کو جدید علاج اور نرسنگ کئیر کیسے ملے گی؟
وزیر اعظم عمران خان کو وفاقی وژن 2030 کے لیے اور وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان خان بزدا ر کو اپنے صوبہ پنجاب اور دیگر وزرا اعلی کو اپنے اپنے صوبوں میں ہیلتھ سسٹم کو جدید بنانے کے لیے شعبہ نرسنگ پر بھی خصوصی توجہ دینا ہوگی اور پاکستان نرسنگ کونسل جوکہ آئینی ادارہ ہے اس کے جاری کردہ احکامات پر بیورو کریٹس سے عمل در آمد بھی کروانا ہوگا۔
شعبہ نرسنگ کو نظر انداز کرکے سرکاری ہسپتالوں او ر نرسنگ ایجوکیشنل اداروں میں بہتری لانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔پاکستان میں بے شمار میڈیکل یونیورسٹیز ہیں ۔ مگر شعبہ نرسنگ کے ساتھ یہ ظلم کی انتہا ہے کہ ملک بھر کی لاکھوں نرسوں کے لیے پورے پاکستان میں ایک بھی نرسنگ یونیورسٹی نہیں بنائی گئی تاہم گذشتہ دور حکومت میں وطن عزیز کی پہلی نرسنگ یونیورسٹی 'شاہ حمد نرسنگ یونیورسٹی اسلام آباد جس کا سنگ بنیاد بحرین کے تعاون سے رکھا گیا تھا اسے سرخ فیتے کی نذر نہ ہونے دیا جائے اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔حکومت نرسنگ پروفیشن کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک چھوڑ کر اسکی طرف خصوصی توجہ دے اور کوالٹی پروفیشنل تعلیم کے ساتھ ساتھ انہیں وہ تمام مراعات مہیا کرے جس کا یہ نوبل پروفیشن حقدار ہے۔
٭…٭…٭
تبصرے